کوٹ ڈیجی ضلع خیر پور میں خیرپور میرس سے 15 میل کے فاصلے پر کراچی پشاور روڈ پر واقع ایک قصبہ ہے۔ یہاں 26 فروری 1926ء کو ایک ایسی تہذیب کے آثار دریافت ہوئے ہیں جو موئن جو دڑو کی تہذیب سے بھی تقریبا 300 سال پرانے ہیں۔ دریافت شدہ آثار 600 فٹ طویل اور 400 فٹ عریض رقبے پر پھیلائے ہوئے ہیں
یہ علاقہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ایک حصہ شہر پناہ اور قلعے پر مشتمل تھا۔ یہ حصہ 40 فٹ بلند اور پانچ سو فٹ لمبا اور 300 فٹ چوڑا ہے۔ یا شہر کا امیر خطبہ رہائش پذیر تھا تھا جبکہ دوسرا حصہ عوام کے مکانات پر مشتمل تھا جو مٹی کے اینٹوں سے بنائے گئے تھے اور جن کی بنیادی پتھروں پر رکھی گئی تھی۔ کیا حال ہے کہ یہ علاقہ چہ ہزار سال قبل آباد ہوا۔
موئن جو دڑو اور ہڑپہ کی تہذیبیں کوٹڈیجی کی تہذیب کے بعد وجود میں آئی۔ موجودہ کوٹ ڈیجی اپنے دنیا کے سب سے بڑے قلعے کی وجہ سے مشہور ہے۔ ٹالپور عہد میں یہ قبضہ ان کا دارالحکومت تھا۔ امیر علی مراد خان ثانی کی رہائش یہی تھی۔ گلے کے اندر ایک پہاڑی تراش کر رائش گاہ بنائی گئی
قلعہ کی تعمیر کا کام سترہ سو ستانوے عیسوی میں شروع ہوا اور 32 سال میں مکمل ہوا۔ یہ کلہ پانچ ہزار فٹ لمبا تین ہزار فٹ چوڑا اور زمین سے 70 فٹ اونچائی پر واقع ہے ۔ اس کو قلعہ احمد آباد بھی کہتے ہیں جو کوٹ ڈیجی کا پہلا نام ہے۔ یہ قلہ اہم دفاعی اور رہائشی مقاصد کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔
اس میں ایک نواب کی نگرانی میں پانچ سو سپاہیوں کا دستہ سوتوپوں سمیت مقرر کیا گیا تھا۔ یہ انتظام 1843 عیسوی تک جاری رہا۔ انگریزی عہد میں اس قلعے کو بطور قید خانہ استعمال کیا گیا۔ موجودہ کوٹڈیجی کی آبادی 9 ہزار کے قریب ہے ۔ طلبہ کے لئے ہائی اسکول اور طالبات کے لئے مڈل اسکول ہے۔ ٹیکسٹائل ملیں بھی ہیں انتظام ٹاؤن کمیٹی چلاتی ہیں۔
اس قلعے کو دیکھنے کے لئے خیرپور میرس سے ہی نا صرف بلکہ پاکستان اور دنیا بھر سے سیاہ کار گھومنے اور دیکھنے آتے ہیں۔