حادثہ یہ بیماری کی صورت میں بچے کو کب ہسپتال لے جانا چاہیے؟

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بات بہت معمولی سی ہوتی ہے لیکن والدین بہت سی غلط فہمیوں میں پڑ جاتے ہیں۔عاد تا پریشان ہوجانے والے اس طرح کے والدین معمولی تکلیف کی صورت میں بھی اپنے بچے کو فورا ہاسپٹل لے جاتے ہیں۔

لیکن دوسری طرف کچھ ایسے مست مگن اور بے پروا والدین بھی ہوتے ہیں کہ انہیں بچوں کی نازک حالت کا بھی اندازہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ان کے بچوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

بعض صورتوں میں تو بچہ خود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے اور بعض صورتوں میں معالج سے رجوع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن جب بیماری یا حادثے کی صورت نازک ہو تو بچے کو ہاسپٹل لے جانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ بہت سی نازک صورتوں میں سرجن کی توجہ در کار ہوتی ہے۔

سب سے زیادہ پیش آنے والی صورت وہ ہوتی ہے کہ جب بچے کے منہ سے غذا یا کوئی اور چیز پھسل کر سانس کی نالی میں چلی جاتی ہے اور اس کے لئے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔

ایسی صورت میں میں بچے کو فوراً اسپتال لے جانا چاہیے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ والدین کو اس امر کا اندازہ کیسے ہو کہ بچے کی سانس کی نالی میں کوئی چیز پھنس گئی ہے۔

سانس کی نالی میں کسی چیز کے پھنس جانے کی علامت یہ ہے کہ بچے کا سانس گھٹنے لگتا ہے۔ وقتی طور پر اس کی سانس رک جاتی ہے اور اس کو مسلسل کھانسی اٹھنے لگتی ہے۔ اگر غذا کا کوئی معمولی ٹکرا سانس کی نالی میں پھنس جاتا ہے تو وہ کھانسی کے دوران میں باہر آ جاتا ہے لیکن اگر کھانسی سے کوئی چیز بار نہ آئے اور بچے کی سانس میں خر خراہٹ پیدا ہو جائے یا اسے بخار چڑھ جائے تو سمجھ لیجیے کہ سانس کی نالی میں پھنسی چیز وہاں سے پھنسل کر پھیپھڑوں تک پہنچ گئی ہے ۔ایسی صورت میں بچے کو فورا اسپتال لے جانا چاہیے۔

بالعموم تفصیلی معائنہ اور ایکسرے سے اس بات کی توثیق ہوجاتی ہے کہ کوئی چیز پھیپھڑوں تک پہنچ گئی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو بچے کے علاج کے خاطر اسے بے ہوش کرکے اس کی سانس کی نالی کا “برونکو اسکو پک” معائنہ کیا جاتا ہے۔ اس سے معائنے میں ایک آلہ جسے “برونکس کوپ” کہتے ہیں بچے کے منہ کے ذریعے اس کی سانس کی نالی میں ڈالا جاتا ہے اور بیرونی چیز کو ایک جگہ ٹھہرا کر باہر نکال لیا جاتا ہے اور اس طرح بچے کو مزید نقصان سے بچا لیا جاتا ہے۔

پاکستان میں اس صورت حال کا بڑا سبب چھالیہ کا استعمال ہوتا ہے۔ اکثر و بیشتر بچے جو ایمرجنسی روم میں آتے ہیں ان کے پھیپھڑوں یا سانس کی نالی میں چھالیہ کا ٹکڑا اٹکا ہوتا ہے بعض دوسرے بچے ایسے بھی ہوتے ہونگے جو چھالیا اٹکنے کی وجہ سے اس سے پہلے ہی دم توڑ دیتے ہونگے کہ ان کو اسپتال تک لایا جاتا ہے۔

چھالیہ سانس کی نالی یا پھیپھڑوں میں پہنچ جانے کے بعد بہت عرصہ تک اپنی اصل صورت کو برقرار رکھتی ہے اور نمونیا یا پھیپھڑوں کی بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔

معمولی احتیاط سے چیزوں کو سانس کی نالی یا پھیپھڑوں تک پہنچنے سے روکا جا سکتا ہے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ٹیلی ویژن پر بچوں کو بڑی خوشی خوشی چھالیہ کھاتے دکھایا جاتا ہے اور اس طرح دوسرے بچوں کو بھی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ چھالیہ کھائیں۔

اس طرح کے اشتہارات پر فورا پابندی لگانی چاہیے اور جس طرح سگریٹ کی ڈبیوں پر اس کے مضر ہونے کی نشاندہی کی جاتی ہے اسی طرح چھالیہ کے پیکٹوں پر بھی لکھا جانا چاہیے کہ چھالیہ کے استعمال سے بچوں کا دم گھٹ سکتا ہے۔

والدین کو چاہیے کہ ایسے بچوں کو جن کے داڑھ نہ نکلی ہو چھالیہ یا مونگ پھلی وغیرہ بالکل نہ کھلائیں۔ بچوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر چیز منہ میں رکھ لیتے ہیں کیا یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز بھی منہ میں رکھ لے جس سے ان کی غذائی نالی زخمی ہو جائے۔

اگر بچہ کوئی ایسی چیز نکل جائے جو زنگ آلود ہو یا جس میں تیزابیت کے اثرات ہو تو والدین کو چاہیے کہ بچے کو فورا اسپتال لے جائیں۔ ایسے موقعوں پر کچھ والدین بچے کو دودھ پلا کر بیرونی چیز کے اثرات زائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ بالکل غلط ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ بچے کو بے ہوش کرکے اس کی غذا کی نالی کا معائنہ کیا جائے اور زخم کو خشک کرنے کی کوشش کی جائے اور اگر زخم زیادہ سخت قسم کا ہو تو بڑی مدت علاج کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ جہاں زخم کا داغ یا نشان بنا ہے وہاں کا خلیہ غذائی نالی کے راستے کو روک تو نہیں رہا ہے۔

یہ زنگ آلود چیزیں اکثر نالی وغیرہ صاف کرنے کے پاؤڈر وغیرہ کے ڈھکنوں کی صورت میں ہر گھر میں ہوتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اس طرح کے ڈبوں کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔ یوں تو بچوں کے پیٹ میں درد اکثر ہوتا رہتا ہے اور اکثر اوقات یہ درد اتنا پریشان کن بھی نہیں ہوتا۔

البتہ چار سے چودہ سال تک کے بچوں کو زائد آنت میں سوزش اور ورم کی شکایت پیدا ھو جاتی ہے لہذا والدین اسے درد کو نظر انداز نہ کرے جو مسلسل ہوتا اور جس کے ساتھ ساتھ بخار اور متلی کی شکایت بھی ہو۔

ایسی صورت میں فوراً کسی معالج سے مشورہ کرنا چائیے ۔ اگر معالج بتائے کہ زائد آنت میں سوزش ہے تو اسے نکلوا دینا چاہیے ورنہ تمام جسم میں انفیکشن پھیل سکتا ہے۔

علاوہ ازیں ایمرجنسی کی دو سورتیں اور ہیں ایک یہ کہ جب چھوٹی عمر کی لڑکوں کی جاںگھوں اور خصیوں میں ورم ہو جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ ان کو ہر نیا کی شکایت ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں بچے کو فورا ہسپتال لے جانا چاہیے۔ لڑکیوں کو یہ شکایت قادرے کم ہوتی ہے۔

ہمارے آپ بچوں میں یہ مرض بہت عام ہے اور اس کا بڑا سبب غذا اور پانی میں جراثیم اور وائرس کی شمولیت ہوتی ہے۔ اگر ہیضے میں الٹیاں بھی آرہی ہو تو جسم میں پانی کی کمی پیدا ہوسکتی ہے لہذا اپنے بچے کو فوری طور پر ہسپتال لے جانا چاہیے۔ جسم میں پانی کی قلت کی ایک علامت یہ ہے کہ بچے کو پیشاب معمول سے کم آتا ہے اور اس کا رنگ بھی گہرا ہوتا ہے۔

ہیضہ کی بیماری میں دستوں کے ساتھ خون بھی آئے تو فورا اسپتال کا رخ کرنا چاہیے۔ یوں تو بچے اکثر گرتے رہتے ہیں اور ان کے چوٹیں آتی رہتی ہیں۔ یہ ایک معمول کی بات ہے لیکن جب بچہ اس طرح گرے کہ اس کی کوئی ہڈی یا ٹوٹ جائے یا اس میں بال پڑ جائے تو بچے کو ہسپتال لے جانا ضروری ہے۔

ہڈی ٹوٹنے یا اس نے بال پڑنے کی صورت میں چوٹ کی جگہ بہت زیادہ ورم ہو جاتا ہے اور بچہ چوٹ لگے ہوئے عضو کو نہ تو استعمال کر سکتا ہے اور نہ نہ اس پر بوجھ ڈال سکتا ہے ۔ علاوہ ازیں بچے کو نیند بہت آتی ہے یہ سب علامت فیکچر کی ہیں۔

بچہ معمولی طور پر جلا ہے اور جلنے کے زخم گہرے نہیں ہیں تو کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ معمولی طور پر جلنے کی صورت میں جلا ہوا حصہ سرخ ہو جاتا ہے بلکہ اس طرح زیادہ دھوپ میں بیٹھنے سے بھی جلدی سرخ ہو جاتا ہے ہے۔

لیکن جب جلنے کے زخم گہرے ہوتے ہیں تو فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ گہرے زخموں کے ساتھ جلے ہوئے حصے پر چھالے پڑ جاتے ہیں۔ جب اس طرح کا جلا ہوا حصہ جس پر چھالے پڑ گئے ہیں، جسم کا 10 فیصد ہو تو بچے کو فورا اسپتال لے جانا چاہیے جسم کا دس فیصد حصہ بچے کی ایک بازو کی پیمائش کے برابر ہوتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں